تاریخ اسلام میں ایسے بے شمار نام محفوظ ہیں جن کے کارہائے نمایاں رہتی دنیا تک یاد رکھے جائیں گے لیکن جب ذکر سیدنا اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی رضی اللہ تعالی عنہ کا آجائے تو تاریخ ڈھونڈتی ہے کہ ان جیسا دوسراکوئی ایک ہی اسے اپنے دامن میں مل جائے ۔ کوئی کسی فن کا امام ہے تو کوئی کسی علم کا ماہر لیکن سیدنا اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالی عنہ ہر علم ، ہر فن کے آفتاب و ماہتاب ہیں
جس سمت دیکھئے وہ علاقہ رضا کا ہے
جہاں مالک قدیر نے آپ کو ،نامور آباؤ اجداد اور معزز و مقدس قبیلہ میں پیدا فرمایا وہیں آپ کی اولاد اورخاندان میں بھی بے شمار بے مثال ولاجواب افراد پیدا فرمائے ۔ استاد زمن ، حجۃ الاسلام ، مفتئ اعظم ،مفسر اعظم ،حکیم الاسلام، ریحان ملت ، صدر العلماء ، امین شریعت جس کسی کو دیکھ لیجئے ہر ایک اپنی مثال آپ ہے ۔
انہی میں ایک نام سر سبز وشاداب باغِ رضا کے گل شگفتہ ، روشن روشن فلک رضا کے نیر تاباں قاضی القضاۃ فی الہند ، جانشین مفتئ اعظم ،حضور تاج الشریعہ حضرۃ العلام مفتی محمد اختر رضا خاں قادری ازہری دام ظلہ علینا کا بھی ہے ۔
حضور تاج الشریعہ دام ظلہ، علینا مفسر اعظم ہند حضرت علامہ مفتی محمد ابراہیم رضا خاں قادری جیلانی کے لخت جگر ، سرکار مفتئ اعظم ہند علامہ مفتی مصطفی رضاخاں قادری نوری کے سچے جانشین ،حجۃ الاسلام حضرت علامہ مفتی محمد حامد رضا خاں قادری رضوی کے مظہر اور سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت مجدد دین و ملت الشاہ امام احمد رضا خاں قادری برکاتی بریلوی کی برکات و فیوضات کا منبع اور ان کے علوم و روایتوں کے وراث و امین ہیں۔
ان عظیم نسبتوں کا فیضان آپ کی شخصیت میں اوصاف حمیدہ اور اخلاق کریمانہ کی صورت میں جھلک رہا ہے ۔استاذ الفقہأ حضرت علامہ مفتی عبد الرحیم صاحب بستوی دامت برکاتہم القدسیہ حضورتاج الشریعہ دام ظلہ، علیناپر ان عظیم ہستیوں کے فیضان کی بارشوں کاتذکرہ ان الفاظ میں کرتے ہیں:'' سب ہی حضرات گرامی کے کمالات علمی و عملی سے آپ کو گراں قدر حصہ ملا ہے ۔ فہم و ذکا ،قوت حافظہ و تقویٰ سیدی اعلیٰ حضرت سے ،جودت طبع و مہارت تامہ (عربی ادب ) میں حضور حجۃ الاسلام سے ،فقہ میں تبحر و اصابت سرکار مفتئ اعظم ہند سے ، قوت خطابت و بیان والد ذی وقار مفسر اعظم ہند سے یعنی وہ تمام خوبیاں آپ کووارثتہً حاصل ہیںجن کی رہبر شریعت و طریقت کو ضرورت ہوتی ہے ۔ ''[پیش گفتار ،شرح حدیث نیت/صفحہ:٤ ]
جانشین رضا شاہ اختر رضا
فخر اہل سنن شاہ اختر رضا
ہیں میری زندگی شاہ اختر رضا
ان کا سایہ سروں پر رہے دائما
ان کی نورانی صورت پہ لاکھوں سلام
مصطفیٰ جان رحمت پہ لاکھوں سلام
ولادت باسعادت:۔
حضور تاج الشریعہ دام ظلہ، علینا کی ولادت باسعادت ٢٦/محرم الحرام ١٣٦٢ھ بمطابق ٢/فروری ١٩٤٣ء بروز منگل ہندوستان کے شہر بریلی شریف کے محلہ سوداگران میں ہوئی ۔
اسم گرامی:۔
آپ کااسم گرامی ''محمداسماعیل رضا'' جبکہ عرفیت ''اختر رضا ''ہے ۔ آپ اخترتخلص استعمال فرماتے ہیں۔آپ کے القابات میں تاج الشریعہ، جانشین مفتئ اعظم، شیخ الاسلام و المسلمین زیادہ مشہور ہیں۔
شجرہ نسب:۔
اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت تک آپ کا شجرہ نصب یوں ہے۔ محمد اختررضاخاں قادری ازہری بن محمد ابرہیم رضا خاں قادری جیلانی بن محمد حامد رضا خاں قادری رضوی بن امام احمد رضا خاں قادری برکاتی بریلوی
آپ ٥/ بھائی اور٣/بہنیں ہیں۔٢/بھائی آپ سے بڑے ہیں ۔ریحان ملت مولانا ریحان رضا خاں قادری اورتنویر رضا خاں قادری (آپ پچپن ہی سے جذب کی کیفیت میں غرق رہتے تھے بالآ خر مفقود الخبرہوگئے) اور٢/ آپ سے چھوٹے ہیں۔ ڈاکٹر قمر رضا خاں قادری اور مولانا منان رضا خاں قادری
تعلیم و تربیت:۔
جانشین مفتئ اعظم حضور تاج الشریعہ دام ظلہ، علینا کی عمر شریف جب ٤/سال ،٤/ ماہ اور٤/ دن ہوئی توآپ کے والد ماجد مفسر اعظم ہند حضرت ابراہیم رضا خاں جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ نے تقریب بسم اللہ خوانی منعقد کی ۔اس تقریب سعید میں ''یاد گار اعلی حضرت دارالعلوم منظر الاسلام'' کے تمام طلبہ کو دعوت دی گئی۔ رسم بسم اللہ نانا جان تاجدار اہلسنّت سرکار مفتئ اعظم ہند محمد مصطفی رضاخاں نور ی نے ادا کرائی۔ حضور تاج الشریعہ دام ظلہ، علینا نے ''ناظرہ قرآن کریم ''اپنی والدہ ماجدہ شہزادیئ مفتی اعظم سے گھر پرہی ختم کیا ،والدماجد سے ابتدائی اردو کتب پڑھیں۔ اس کے بعد والد بزرگوار نے ''دارالعلوم منظرالاسلام'' میں داخل کرا دیا ، درس نظامی کی تکمیل آپ نے منظر الاسلام سے کی ۔اس کے بعد١٩٦٣ء میں حضورتاج الشریعہ دام ظلہ، علینا ''جامعۃ الازہر''قاہرہ ،مصرتشریف لے گئے ۔وہاں آپ نے ''کلیہ اصول الدین'' میں داخلہ لیااورمسلسل تین سال تک'' جامعہ ازہر، مصر'' کے فن تفسیر و حدیث کے ماہر اساتذہ سے اکتساب علم کیا۔ تاج الشریعہ ١٩٦٦ء /١٣٨٦ھ میںجامعۃ الازہر سے فارغ ہوئے۔ اپنی جماعت میں اول پوزیشن حاصل کرنے پر آپ کواس وقت کے مصر کے صدر کرنل جمال عبدالناصر نے ''جامعہ ازہر ایوارڈ'' پیش کیا اور ساتھ ہی سند سے بھی نوازے گئے۔ [بحوالہ : مفتئ اعظم ہند اور ان کے خلفاء /صفحہ :١٥٠/جلد :١]
اساتذہ کرام :۔
آپ کے اساتذہ کرام میں حضور مفتی اعظم الشاہ مصطفےٰ رضاخاں نوری بریلوی ، بحر العلوم حضرت مفتی سید محمد افضل حسین رضوی مونگیری،مفسر اعظم ہند حضرت مفتی محمد ابراہیم رضا جیلانی رضوی بریلوی،فضیلت الشیخ علامہ محمد سماحی ،شیخ الحدیث و التفسیر جامعہ ازہر قاہرہ، حضرت علامہ مولانا محمود عبدالغفار ،استاذالحدیث جامعہ ازہر قاہرہ، ریحان ملت ،قائداعظم مولانا محمد ریحان رضا رحمانی رضوی بریلوی، استاذ الاساتذہ مولانا مفتی محمد احمد عرف جہانگیر خاں رضوی اعظمی کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔ [مفتئ اعظم ہند اور ان کے خلفاء /صفحہ :١٥٠/جلد :١]
ازدواجی زندگی:۔
جانشین مفتی اعظم کا عقد مسنون حکیم الاسلام مولانا حسنین رضا بریلوی رضی اللہ تعالی عنہ کی دختر نیک اخترکے ساتھ ٣/نومبر١٩٦٨ء/ شعبان المعظم١٣٨٨ھ بروز اتوار کو محلہ کا نکر ٹولہ شہر کہنہ بریلی میں ہوا۔ آپ کے ایک صاحبزادہ مخدوم گرامی مولانا عسجد رضا قادری برےلوی اور پانچ صاحبزادیاں ہیں۔
درس وتدریس :۔
حضور تاج الشریعہ دام ظلہ، علینا نے تدریس کی ابتدادارالعلوم منظر اسلام بریلی سے ١٩٦٧ء میں کی۔ ١٩٧٨ء میں آپ دارالعلوم کے صدر المدرس اور رضوی دارالافتاء کے صدر مفتی کے عہدے پر فائز ہوئے ۔ درس و تدرےس کا سلسلہ مسلسل بارہ سال جاری رہالیکن حضور تاج الشریعہ دام ظلہ، علینا کی کثیر مصروفیات کے سبب یہ سلسلہ مستقل جاری نہیں رہ سکا ۔لیکن آج بھی آپ مرکزی دارالافتاء بریلی شریف میں ''تخصص فی الفقہ '' کے علمائے کرام کو ''رسم المفتی،اجلی الاعلام'' اور ''بخاری شریف '' کا درس دیتے ہیں۔
بیعت وخلافت :۔
حضورتا ج الشریعہ کو بیعت و خلافت کا شرف سرکار مفتئ اعظم سے حاصل ہے۔ سرکار مفتئ اعظم ہند نے بچپن ہی میں آپ کوبیعت کا شرف عطا فرمادیا تھااور صرف ١٩/ سال کی عمر میں١٥/جنوری١٩٦٢ئ/١٣٨١ ھ کو تمام سلاسل کی خلافت و اجازت سے نوازا۔ علاوہ ازیں آپ کو خلیفہ اعلیٰ حضرت برہان ملت حضرت مفتی برہان الحق جبل پوری، سید العلماء حضرت سید شاہ آل مصطفی برکاتی مارہروی،احسن العلماء حضرت سید حیدر حسن میاں برکاتی ،والد ماجد مفسر اعظم علامہ مفتی ابراہیم رضا خاں قادری سے بھی جمیع سلاسل کی اجازت و خلافت حاصل ہے ۔ [تجلیّات تاج الشریعہ / صفحہ: ١٤٩ ]
بارگاہ مرشد میں مقام:۔
<
حضور تاج الشریعہ دام ظلہ، علینا کو اپنے مرشد برحق ،شہزادہ اعلیٰ حضرت تاجدار اہلسنّت امام المشائخ مفتئ اعظم ہند ابو البرکات آل رحمن حضرت علامہ مفتی محمد مصطفی رضاخاں نوری صکی بارگاہ میں بھی بلند مقام حاصل تھا۔ سرکار مفتی اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کو آپ سے بچپن ہی سے بے انتہا توقعات وابستہ تھیں جس کا اندازہ ان کے ارشادات عالیہ سے لگایا جاسکتاہے جو مختلف مواقع پر آپ نے ارشاد فرمائے :
'' اس لڑکے (حضور تاج الشریعہ دام ظلہ، علینا) سے بہت اُمید ہے۔''
سرکار مفتی اعظم ہند نے دارالافتاء کی عظیم ذمہ داری آپ کو سونپتے ہوئے فرمایا: ''اختر میاں اب گھر میں بیٹھنے کا وقت نہیں، یہ لوگ جن کی بھیڑ لگی ہوئی ہے کبھی سکون سے بیٹھنے نہیں دیتے ، اب تم اس کام کو انجام دو، میں تمہارے سپرد کرتا ہوں۔''لوگوں سے مخاطب ہو کر مفتی اعظم نے فرمایا:''آپ لوگ اب اختر میاں سلمہ، سے رجوع کریں انہیں کو میرا قائم مقام اور جانشین جانیں۔ '' حضور مفتی اعظم نے اپنی حیات مبارکہ کے آخری دور میں حضورتاج الشریعہ دام ظلہ علینا کوتحریراًاپنا قائم مقام و جانشین مقرر فرمایا تھا۔
شبیہ اعلیٰ حضرت با خدا تاج شریعت ہیں | بتاؤں کیسے کتنے پر ضیاء تاج شریعت ہیں |
سراپا پیکر صدق و صفا تاج شریعت ہیں | نبی کے عشق کا جلوہ نظر آتا ہے چہرے میں |
علی ، فاروق عثمان کی ادا تاج شریعت ہیں | شجاعت کے ،عدالت کے ،سخاوت کے ہیں وہ پیکر |
ہمیشہ محو ِ عشق مصطفی تاج شریعت ہیں | ہر اک لمحہ ،ہر اک ساعت، شب و دن دیکھئے چل کر |
شہ بطحاکے دامن کی ہوا تاج شریعت ہیں | حبیب ناتواں کو حشر کی گرمی کا کیوں غم ہو |
فتویٰ نویسی :۔
١٨١٦ء میںروہیلہ حکومت کے خاتمہ ،بریلی شریف پرانگریز وں کے قبضہ اور حضرت مفتی محمد عیوض صاحب کے روہیلکھنڈ(بریلی) ٹونک تشریف لے جانے کے بعد بریلی کی مسند افتاء خالی تھی ۔ایسے نازک اور پر آشوب دور میں امام العلماء علامہ مفتی رضا علی خاں نقشبندی رضی اللہ تعالی عنہ نے بریلی کی مسند افتاء کورونق بخشی ۔ یہیںسے خانوادہ رضویہ میں فتاویٰ نویسی کی عظیم الشان روایت کی ابتداء ہوئی۔ [بحوالہ:مولانا نقی علی خاں علیہ الرحمہ حیات اور علمی وادبی کارنامے/ صفحہ ٧٨ ]
لیکن مجموعہ فتاویٰ بریلی شریف میں آپ کی فتویٰ نویسی کی ابتداء ١٨٣١ء لکھی ہے ۔ (غالباً درمیانی عرصہ انگریز قابضوں کی ریشہ دوانیوں کے سبب مسند افتاء خالی ہی رہی) الحمدللہ! ١٨٣١ء سے آج ٢٠٠٩ء تک یہ تابناک سلسلہ جاری و ساری ہے ۔ یعنی خاندان رضویہ میں فتاویٰ نویسی کی ایمان افروز روایت ١٧٨/ سال سے مسلسل چلی آرہی ہے ۔امام الفقہأ ،حضرت علامہ مفتی محمد رضا علی خاں قادری بریلوی،امام المتکلمین ،حضرت علامہ مولانامحمد نقی علی خاں قادری برکاتی،اعلیٰ حضرت ،مجدد دین وملت ،حضرت علامہ مولانا مفتی محمد احمد رضا خاں قادری برکاتی ،شہزادہئ اعلیٰ حضرت ،حجۃ الالسلام ،جمال الانام حضرت علامہ مولانا مفتی حامد رضا خاں قادری رضوی، شہزادہئ اعلیٰ حضرت تاجدار اہل سنت ،مفتئ اعظم ہند ،علامہ مولانا مفتی محمد مصطفی رضا خاں قادری نوری، نبیرہ اعلیٰ حضرت ،مفسر اعظم ہند حضرت علامہ مفتی ابراہیم رضا خاں قادری رضوی اوراب ان کے بعد اب قاضی القضاۃ فی الہند ،تاج الشریعہ ،حضرت علامہ مولانا مفتی اختر رضا خاں قادری ازہری دام ظلہ، علینا١٩٦٧ء سے تادم تحریر٤٢/سال سے اس خدمت کو بحسن و خوبی سرانجام دے رہے ہیں۔ [بحولہ: فتاویٰ بریلی شریف /صفحہ:٢٢]
آپ خود اپنے فتوی نویسی کی ابتداء سے متعلق فرماتے ہیں:''میں بچپن سے ہی حضرت (مفتی اعظم) سے داخل سلسلہ ہو گیا ہوں، جامعہ ازہر سے واپسی کے بعد میں نے اپنی دلچسپی کی بناء پر فتویٰ کا کام شروع کیا۔ شروع شروع میں مفتی سید افضل حسین صاحب علیہ الرحمتہ اور دوسرے مفتیانِ کرام کی نگرانی میں یہ کام کرتا رہا۔ اور کبھی کبھی حضرت کی خدمت میں حاضر ہو کر فتویٰ دکھایا کرتا تھا۔ کچھ دنوں کے بعد اس کام میں میری دلچسپی زیادہ بڑھ گئی اور پھر میں مستقل حضرت کی خدمت میں حاضر ہونے لگا۔ حضرت کی توجہ سے مختصر مدت میں اس کام میں مجھے وہ فیض حاصل ہوا کہ جو کسی کے پاس مدتوں بیٹھنے سے بھی نہ ہوتا ۔''[مفتئ اعظم ہند اور ان کے خلفاء صفحہ :١٥٠/جلد :١]
حضورتاج الشریعہ دام ظلہ، علینا کے فتاویٰ سارے عالم میں سند کا درجہ رکھتے ہیں۔ وہ دقیق و پیچیدہ مسائل جو علماء اور مفتیان کرام کے درمیان مختلف فیہ ہوں ان میں حضرت کے قول کو ہی فیصل تسلیم کیا جاتا ہے اور جس فتوے پر آپ کی مہر تصدیق ثبت ہو خواص کے نزدیک بھی وہ انتہائی معتبر ہوتاہے۔ حضورتاج الشریعہ دام ظلہ، علینا کے فتاویٰ سے متعلق جگرگوشہ صدرالشریعہ ، محدث کبیر حضرت علامہ مفتی ضیاء المصطفیٰ اعظمی دامت برکاتہم العالیہ رقم طراز ہیں: ''تاج الشریعہ کے قلم سے نکلے ہوئے فتاویٰ کے مطالعہ سے ایسا لگتا ہے ہم اعلیٰ حضرت امام احمد رضا رضی اللہ تعالی عنہ کی تحریر پڑھ رہے آپ کی تحریرمیںدلائل اور حوالہ جات کی بھر مار سے یہی ظاہر ہوتاہے ۔'' [حیات تاج الشریعہ/صفحہ٦٦]
حج وزیات:۔
حضور تاج الشریعہ دام ظلہ، علینا نے پہلی مرتبہ حج وزیارت کی سعادت ١٤٠٣ھ/ ١٩٨٣ء میں حاصل کی ۔ دوسری مرتبہ ١٤٠٥ھ/ ١٩٨٥ء اور تیسری مرتبہ ١٤٠٦ھ/١٩٨٦ء میں اس سعادت عظمیٰ سے مشرف ہوئے ۔جبکہ چوتھی مرتبہ ١٤٢٩ھ/٢٠٠٨ء میں آپ نے حج بیت اللہ ادا فرمایا۔ نیز متعدد مرتبہ آپ کو سرکار عالی وقار کی بارگاہ بے کس پناہ سے عمرہ کی سعادت بھی عطا ہوئی ۔
اعلائے کلمۃ الحق:۔
احقاق حق و ابطال باطل ،خانوادہئ رضویہ کی ان صفات میں سے ہے جس کا اعتراف نہ صرف اپنوں بلکہ بیگانوں کو بھی کرنا پڑا۔یہاں حق کے مقابل نہ اپنے پرائے کا فرق رکھا جاتا ہے نہ امیر و غریب کی تفریق کی جاتی ہے۔ سیدی اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالی عنہ کا دور تو تھا ہی فتنوں کا دور ہر طرف کفرو الحاد کی آندھیاں چل رہی تھیں لیکن علم بردار حق سیدی اعلیٰ حضرتص نے کبھی باطل کے سامنے سر نہ جھکایاچاہے ذبحِ گائے کا فتنہ ہویاہندو مسلم اتحاد کا ، تحریک ترک موالات ہو یا تحریک خلافت یہ مرد مومن آوازہئ حق بلند کرتا ہی رہا۔ سرکارمفتئ اعظم صکی حق گوئی وبے باکی بھی تاریخ کا درخشندہ باب ہے شدھی تحریک کا زمانہ ہو یانسبندی کاپر خطر دور ہوآپ نے علم حق کبھی سرنگوں نہ ہونے دیا۔ اللہ رب العزت نے جانشےن مفتی اعظم کواپنے اسلاف کا پرتو بنایاہے ۔آپ کی حق گوئی اور بے باکی بھی قابل تقلید ہے۔ وقتی مصلحتیں،طعن و تشنیع ، مصائب وآلام یہاں تک کہ قید و بند کی صعوبتیں بھی آپ کو راہ حق سے نہ ہٹا سکی ۔آپ نے کبھی اہل ثروت کی خوشی یا حکومتی منشاء کے مطابق فتویٰ نہےں تحرےر فرماےا، ہمیشہ صداقت و حقانےت کا دامن تھامے رکھا ۔اس راہ میں کبھی آپ نے اپنے پرائے ، چھوٹے بڑے کافرق ملحوظ خاطر نہیں رکھا۔ ہر معاملہ میں آپ اپنے آباء و اجدادکی روشن اور تابناک روایتوں کی پاسداری فرماتے رہے ہیں۔شیخ عالم حضرت علامہ سیدشاہ فخر الدین اشرف الاشرفی کچھوچھوی دامت برکاتہم القدسیہ زیب سجادہ کچھوچھہ مقدسہ تحریر فرماتے ہیں: ''علامہ (حضورتاج الشریعہ کا)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہر حال میں باد سموم کی تیز و تند،غضبناک آندھیوں کی زد میں بھی استقامت علی الحق کا مظاہر ہ کرنا اور ثابت قدم رہنا یہ وہ عظیم وصف ہے جس نے مجھے کافی متاثر کیا۔''[تجلیّاتِ تاج الشریعہ /صفحہ :٢٥١]
اس سلسلہ میں ٢/ واقعات درج ذیل ہیں ۔تیسری مرتبہ١٩٨٦ئ/١٤٠٦ھ حج کے موقع پرسعودی حکومت نے آپ کو بیجا گرفتار کرلیااس موقع پر آپ نے حق گوئی و بے باکی کاجومظاہرہ کیا وہ آپ ہی کاحصہ ہے۔ سعودی مظالم کی مختصرسی جھلک خود حضور تاج الشریعہ دام ظلہ، علینا کی زبانی ملاحظہ فرمائیں:''مختصر یہ کہ مسلسل سوالات کے باوجود میرا جرم میرے بار بار پوچھنے کے بعد بھی مجھے نہ بتایا بلکہ یہی کہتے رہے کہ : ''میرا معاملہ اہمیت نہیں رکھتا۔'' لیکن اس کے باوجود میری رہائی میں تاخیر کی اور بغیر اظہار جرم مجھے مدینہ منورہ کی حاضری سے موقوف رکھا اور١١/ دنوں کے بعد جب مجھے جدہ روانہ کیا گیا تو میرے ہاتھوں میں جدہ ائیر پورٹ تک ہتھکڑی پہنائے رکھی اور راستے میں نماز ظہر کے لیے موقع بھی نہ دیا گیا اس وجہ سے میری نماز ظہر قضاہو گئی۔''[مفتئ اعظم ہند اور ان کے خلفاء صفحہ :١٥٠/جلد :١]
ذیل کے اشعار میںحضور تاج الشریعہ دام ظلہ، علینا نے اسی واقعہ کا ذکرفرمایا ہے ۔
نہ رکھا مجھ کو طیبہ کی قفس میں اس ستم گر نے
ستم کیسا ہوا بلبل پہ یہ قید ستم گر میں
ستم سے اپنے مٹ جاؤ گے تم خود اے ستمگارو
سنو ہم کہہ رہے ہیں بے خطرہ دورِستم گر میں
سعودی حکومت کے اس متعصب رویہ ،حضور تاج الشریعہ دام ظلہ، علینا کی بیجا گرفتاری اور مدینہ طیبہ کی حاضری سے روکے جانے پر پورے عالم اسلام میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی ، مسلمانان اہل سنت کی جانب سے ساری دنیا میں سعودی حکومت کے خلاف احتجاجات کا سلسلہ شروع ہوگیا ، اخبارات و رسائل نے بھی آپ کی بےجا گرفتاری کی شدید مذمت کی۔ آخر کاراہل سنت و جماعت کی قربانیاں رنگ لائیں ، سعودی حکومت کو سر جھکانا پڑا ،اس وقت کے سعودی فرنروا شاہ فہدنے لندن میں ےہ اعلان کیاکہ ''حرمین شرفین میں ہر مسلک کے لوگوں کو ان کے طریقے پر عبادات کرنے کی آزادی ہو گی۔''نیز آپ کو زیارت مدینہ طیبہ اور عمرہ کے لئے ایک ماہ کا خصوصی ویزہ بھی دیا۔ اس معاملہ میں قائد اہلسنّت حضرت علامہ ارشد القادری رضی اللہ تعالی عنہ کی کاوشیں قابل ذکر ہیں۔
خلیفہ سرکار مفتی اعظم ہند ، علامہ بدر الدین احمد قادری حضور تاج الشریعہ دام ظلہ، علیناکی حق گوئی سے متعلق رقم طراز ہیں :''حضرت سرکار خواجہ غریب نواز کے سالانہ عرس پاک کے موقع پر میں اجمیر مقدس حاضر ہوا، چھٹویں رجب ١٤٠٩ھ بروز دوشنبہ مبارکہ (پیر) مطابق ١٣/فروری١٩٨٩ء کو حضرت سید احمد علی صاحب قبلہ خادم درگاہ سرکار خواجہ صاحب کے کاشانہ پر قل شریف کی محفل منعقد ہوئی ۔ محفل میں حضرت علامہ مولانا اختر رضاازہری قبلہ مدظلہ، العالی اور حضرت مولانا مفتی رجب علی صاحب قبلہ ساکن نانپارہ بہرائچ شریف نیز دیگر علماء کرا م موجود تھے ۔ قل شریف کے اس مجمع میں سرکار شیر بیشہئ اہلسنّت امام المناظرین حضور مولانا علامہ محمد حشمت علی خاں علیہ الرحمۃ والرضوان کے شاہزادے حضرت مولانا ادریس رضا خاں صاحب تقریر کر رہے تھے ۔ اثنائے تقریر میں مولانا موصوف کی زبان سے یہ جملہ نکلا کہ:'' ہمارے سرکار پیارے مصطفی اپنے غلاموں کو اپنی کالی کملی میں چھپائیں گے ۔ '' فوراً حضرت علامہ ازہری صاحب قبلہ نے مولانا موصوف کو ٹوکتے ہوئے فرمایا کہ (کالی کملی کے بجائے )نوری چادر کہو۔ یہ شرعی تنبیہ سنتے ہی مولانا موصوف نے اپنی تقریر روک کر پہلے حضرت علامہ ازہری قبلہ کی تنبیہ کو سراہا ، بعدہ، بھرے مجمع میں یہ واضح کیا کہ ''کملی ''تصغیر کا کلمہ ہے جس کو سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت کرکے بولنا ہر گز جائز نہیں اور چوں کہ میری زبان سے یہ خلاف شریعت کلمہ نکلا اس لئے میں بارگاہ الٰہی میں اس کلمہ کے بولنے سے توبہ کرتاہوں ۔ اللہ تعالیٰ مجھے معاف فرمائے ۔ (ھٰذَا اَوْکَمَا قَالَ )پھر توبہ کے بعد موصوف نے اپنی بقیہ تقریر پوری کی ۔ '' [عطیہئ ربانی در مقالہئ نورانی ،صفحہ :٢٣،٢٤]